پاکستانی فلمیں عید پر انڈین فلموں پر پابندی کا فائدہ اٹھا پائیں گی
پاکستانی سینما گھروں میں عید کے موقعے پر انڈین فلموں کی نمائش پر سرکاری پابندی کے فیصلے کے بعد ایک ہفتے تک تو پاکستانی فلمیں آپس میں ہی مدمقابل ہوں گی لیکن اس کے بعد بالی وڈ سٹار سلمان خان کی فلم ریس تھری بھی اس ریس میں شامل ہو سکتی ہے۔
عید کے موقع پر پاکستان کے سینما گھروں میں چار پاکستانی فلمیں سات دن محبت اِن، آزادی، وجود اور نہ بینڈ نہ باراتی نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔
عید کے موقع پر دو ہفتے کے لیے انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی کا فیصلہ گذشتہ ماہ سامنے آیا تھا اور اس کا مقصد مقامی فلمی صنعت کو بزنس کا موقع دے کر مضبوط بنانا تھا۔
بعدازاں اس پابندی کو ایک ہفتے تک محدود کر دیا گیا۔
اس پابندی کے اثرات پر بی بی سی اردو کے موسیٰ یاوری سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فلمساز سید نور نے کہا کہ پاکستان میں سینما گھروں کی تعداد کم ہونے کے باعث فلمیں اتنا بزنس نہیں کر پاتیں جتنا کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں عید کے دوران دو ہفتے تک انڈین فلمز پر پابندی کا فیصلہ زیادہ موثر ہوتا۔
’ڈر یہ ہوتا ہے چونکہ سینما کم ہیں تو فلمیں بزنس اتنا نہیں کر پائیں گی جتنا انھیں کرنا چاہیے اور اتنا مضبوط نہیں بن پائے گی جتنا انھیں بننا چاہیے کیونکہ انڈین فلمیں بہرطور بڑی انڈسٹری کی فلمیں ہیں، بڑے ایکٹرز کی فلمیں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ بات نہیں ہے کہ ہم کسی خوف سے کہہ رہے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بزنس کرنے کا موقع ملنا چاہیے، کم از کم عید پر دو ہفتے مل جاتے تو لوگوں کی اپنی فلموں کے پیسے پورے ہو جاتے۔’
انڈین فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی پاکستان میں کچھ عرصے سے زیر بحث ہے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ محدود بجٹ میں بنائی ہوئی پاکستانی فلمیں بڑے بجٹ کی انڈین فلموں کے سامنے بزنس نہیں کر پاتیں جبکہ سینما مالکان کا موقف ہے کہ فلم بین اگرانڈین فلموں کی نمائش کی بدولت سینما آتے ہیں تو انھیں ضرور چلنا چاہیے۔
ملٹی پلیکس برینڈ سنے پیکس کی سی ای او مریم ایل باچا کہتی ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستانی عوام بالی وڈ کی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے اور اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم مکمل طور پر پاکستانی فلم انڈسٹری اور پاکستانی فلموں کی حمایت کرتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ عید کے دوران بالی وڈ کی فلموں پر پابندی کافی ہے۔‘
مریم باچا کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنیما مالکان پاکستان کی فلم انڈسٹری کی حمایت کرنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن انھیں لوگوں کو سینما تک لانے کے لیے بالی وڈ کی فلموں کی بھی ضرورت ہے۔
’ہم جانتے ہیں کہ اتنے سارے لوگ اگر بالی وڈ کی فلموں کے لیے سینما آ رہے ہیں، تو یہ پاکستانی فلموں کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔‘
فلمی نقاد عمیر علوی کا کہنا ہے کہ یہ پاکستانی فلم بینوں کے ساتھ زیادتی ہے کہ انھیں عید پر صرف پاکستانی فلمیں دیکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ’ان کے پاس چوائس ہونی چاہیے کہ وہ چاہے تو انڈین فلم دیکھیں، چاہے پاکستانی یا پھر انگریزی ۔ آپ انھیں صرف چار فلمیں دیکھنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہماری فلمی صنعت ابھی پنپ رہی ہے اور اسے جو مدد چاہیے وہ اسے سنیما میں انڈین فلموں سے ہی ملتی ہے۔
’انڈین فلم جب ساتھ لگی ہوتی ہے تو وہ پاکستانی فلم کی بالواسطہ طور پر مدد کرتی ہے۔ وہ لوگ جو انڈین فلم دیکھنے جاتے ہیں ہاؤس فل ملنے کی صورت میں واپس نہیں چلے جاتے بلکہ ساتھ لگی کوئی نہ کوئی پاکستانی فلم دیکھ کر ہی جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کی مثال بجرنگی بھائی جان کے ساتھ لگنے والی دو پاکستانی فلمیں بن روئے اور رانگ نمبر ہیں جنھوں نے اس بڑی فلم کے ساتھ لگنے کے باوجود بہت اچھا بزنس کیا تھا۔ ’لوگ بجرنگی بھائی جان دیکھنے آتے تھے اور جگہ نہ ملنے پر ان میں سے کوئی ایک فلم دیکھ لیتے تھے۔‘
پاکستانی فلمیں اب آہستہ آہستہ عوام میں مقبول تو ہو رہی ہیں مگر پھر بھی بہت ساری فلمیں سینما ہال میں دیر تک ٹک نہیں پاتیں۔
اس بارے میں عمیر علوی نے کہا کہ شائقین کو متوجہ کرنے کے لیے اہم چیز تنوع ہے۔ ’ورائٹی ہو گی تو لوگ آئیں گے۔ ایک جیسی چار فلمیں لگا کر آپ شائقین کو متوجہ نہیں کر سکتے۔‘
بھارتی فلموں پر عارضی پابندی کے بعد عید کا چاند پاکستانی فلموں کے لیے کتنا مبارک ثابت ہو گا اس کا دارومدار شائقین پر ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ عید کے موقع پر پاکستانی فلمیں ان کی پہلی پسند بنتی ہیں یا پھر وہ بالی وڈ کی بلاک بسٹر کا انتظار کرتے ہیں۔