سنجے دت کی زندگی فلم سے زیادہ فلمی
’اپنی لائف کبھی اپ کبھی ڈاؤن، ڈرگز لیا، مہنگے ہوٹلوں میں رہا جیل میں بھی رہا، گھڑیاں بھی پہنی اور ہتھکڑیاں بھی، تین سو آٹھ گرل فرینڈز تھیں اور ایک اے کے 56 رائفل’۔
یہ ہے فلم سنجو کا ٹریلر اور سنجے دت کی اصلی کہانی بھی۔
سنجے نرگس دت کے بیٹے ہیں جو فلم ‘مدر انڈیا’ میں غلط کام کرنے والے اپنے بیٹے برجو کو گولی مار دیتی ہیں لیکن یہ فلم کی بات تھی۔ 29 جولائی 1959 کو سنجے کی پیدائش کے بعد نرگس نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کا حقیقی بیٹا بھی اپنی زندگی میں کیسے کیسے دشوار راستوں سے گذرے گا۔
فلم ڈویژن کی دستاویزی فلم ‘نرگس اور سنیل دت کا بیٹا سنجے’ میں ان کی ماں نرگس سنجو کو تیار کر کے انہیں چومتی ہیں تو وہ شرما کر اپنا منھ چھپا لیتے ہیں۔ چھوٹا سنجو کیمرے کی طرف نہیں دیکھتا تھا۔ لیکن بعد میں انہوں نے کیمرے کا ہی انتخاب کیا۔
ایک ٹی وی شو میں سنجے دت کی آپا زاہدہ نے ایک قصہ سنایا ان کا کہنا تھا ’سنجو کا دل بہت اچھا ہے ایک بار ان کے ڈرائیور نے ممبئی میں نرمن پوائنٹ پر بار بار ان کی گاڑی کے نزدیک آنے والے ایک بچے کو تھپڑ رسید کر دیا تو گھر واپس آتے وقت سنجو مسلسل روتا رہا جس کے بعد ہمیں گاڑی واپس لینی پڑی اس بچے کو دودھ کی ایک بوتل دلوائی تب کہیں جا کر سنجے چُپ ہوا۔‘
ان کی ماں نرگس نے بتایا تھا سنجے کے پیدا ہونے کے بعد جب میں شوٹنگ لے لیے جاتی تھی تو رونے لگتا تھا اور کام کے دوران بھی مجھے اس کی فکر لگی رہتی تھی اسی لیے میں نے انڈسٹری چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
سنجے نے بہت چھوٹی عمر سے سگریٹ پینی شروع کر دی تھی ان کے پاپا سنیل دت کا کہنا تھا کہ جب کوئی پروڈیوسر یا ڈائریکٹر گھر آتے تو سنجے ان کے چھوڑے ہوئے سیگریٹ پی جاتے۔
سنجے کو بگڑتا دیکھ کر انھوں نے سنجے کو بورڈنگ سکول بھیجنے کا فیصلہ کیا اور سنجے نے کئی سال ہماچل ہماچل پردیش سینٹ لارنس سکول میں گذارے۔
سنجے کو میوزک کا شوق تھا۔
سنیل دت نے اداکار فاروق شیخ کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ 1971 کی جنگ کے بعد جب انڈین فنکار پرفارم کرنے بنگلہ دیش جا رہے تھے تو سنجے دت نے بھی جانے کی ضد کی اور پھر سنجے کو بھی جانے کی اجازت دی گئی۔
1977 میں سنجے اٹھارہ برس کی عمر میں واپس گھر آئے اور ممبئی میں انہیں ایلی فینٹ کالج میں داخلہ دلوایا گیا یہی وہ دور تھا جب سنجے منشیات کی لت کا شکار ہوئے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ اپنے کمرے میں بند رہتے تھے۔
نرگس کو شاید اندازہ تھا کہ ان کا بیٹیا منشیات لینے لگا ہے لیکن انھوں نے یہ بات سنیل دت کو نہیں بتائی۔ سنجے نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ فلموں میں کام کریں گے یوں تو وہ 1971 میں فلم ریشما اور شیرہ میں بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کر چکے تھے۔
بہرحال سنیل دت نے ان کی ٹریننگ کروائی اور جب سنجے فلموں کے لیے تیار ہو گئے تو انہیں فلم ‘راکی’ میں بطور ہیرو لیا گیا اور ٹینا منیم کو ہیروئن۔ جب راکی کی شوٹنگ چل رہی تھی اسی دوران معلوم ہوا کہ ان کی ماں نرگس کو کینسر ہو گیا ہے۔
امریکہ میں دو ماہ کومہ میں رہنے کے بعد جب انہیں ہوش آیا تو انھوں پوچھا ‘سنجے کہاں ہے’۔
ہسپتال میں سنیل دت ان کی سنجے کے لیے آواز ریکارڈ کیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد طبیعت بہتر ہونے کے بعد نرگس انڈیا واپس آگئیں۔
‘راکی’ فلم کی شوٹنگ زوروں پر تھی نرگس کا کہنا تھا کہ چاہے جو بھی ہو انہیں اپنے بیٹے کی فلم کے پریمیئیر میں شریک ہونا ہے خواہ انہیں سٹریچر پر کی کیوں نہ جانا پڑے۔
سنیل دت نے تمام تیار کر لی تھی 7مئی 1981 کو فلم کا پریمیئیر ہونا تھا لیکن 3 مئی کو فلم کی ریلیز سے محض چار دن پہلے نرگس انتقال کر گئیں۔
پریمیئیر میں سنیل دت نے اپنے برابر والی سیٹ خالی رکھی تھی۔ فلم لوگوں کو پسند آئی۔ نرگس کے گذرنے کے بعد سنجے ٹینا منیم اور ڈرگز دونوں کے اور قریب آگئے۔
سنجے نے اپنے کئی انٹرویوز میں کھل کر تسلیم کیا کہ انہوں نے ہر طرح کے ڈرگز لیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بیماری کی طرح ہے۔
ان کے بقول ان کے پاپا کبھی یہ بات چھپاتے نہیں تھے جب بھی کوئی ہروڈیوسر انہیں سائن کرتا تو وہ اسے بتاتے کہ ‘میرا بیٹا منشیات کا عادی ہے پہلے سوچ لو’۔
سنجے نے ایک ٹی ی وی شو پر بتایا تھا ‘ایک دن میں سو کر اٹھا تو پاس میں ایک نوکر کھڑا تھا میں نے کہا بھوک لگی ہے کچھ کھلا دو تو نوکر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ آپ دو دن بعد اٹھے ہیں میں نے آئینہ دیکھا میرا منہ سوجا ہوا تھا اور بال بکھرے ہوئے تھے۔‘
‘مجھے لگا کہ میں مر جاؤں گا میں اپنے والد کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ مجھے آپ کی مدد چاہیے انہوں نے مجھے ممبئی کے بِرج کینڈی ہسپتال میں بھرتی کروادیا۔‘
1984 میں منشیات کی لت چھڑوانے کے لیے سنیل دت انہیں امریکہ لے گئے اور اسی دوران ٹینا سے ان کا رشتہ ٹوٹ گیا۔
امریکہ میں وہ ایک گروپ میں بیٹھے تھے تبھی ایک لڑکے نے نرگس کا ریکارڈ میسج بجانا شروع کر دیا جو سنجو کے نام تھا۔
اس میں کہا گیا تھا ‘کسی بھی بات سے زیادہ اپنی شائستگی اور شخصیت کو برقرار رکھنا، ہمیشہ بڑوں کی عزت کرنا شائستہ زبان رکھنا یہی ایک بات تمہیں دور تک لے کر جائے گی اور زندگی بھر تمہاری مدد کرے گی۔‘